Pages - Menu

بدھ، 7 فروری، 2018

دریائے ستلج پر بورے والا اور چشتیاں کے درمیان پل کی تعمیر ایک دیرینہ عوامی مطالبہ


تحریر: ندیم مشتاق رامے
بورے والا: پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت جب بھی اقتدار میں آئی اس نے ملک کے اندر انفراسٹرکچر کی ترقی کے لئے ہمیشہ بڑے اقدامات کیے ہیں جن کا براہ راست فائدہ معاشی اور انسانی ترقی کی صورت میں سامنے آیا ہے ملک کے اندر موٹر ویز اور شاہراﺅں کی تعمیر کے اقدامات، میٹرو بس اور میٹرو ٹرین جیسے منصوبے ویسے تو مہذب معاشروں میں ترقی کا استعارہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ناقدین ان منصوبوں کے خلاف مسلم لیگ (ن ) کی حکومت پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کی توجہ بڑے شہروں کی ترقی کی جانب مرکوز ہے اور یہ پسماندہ اور چھوٹے علاقوں کو مسلسل نظر انداز کر تی رہی ہے لیکن اس بحث میں پڑنے کی بجائے حکومت کی توجہ ایک دیرینہ مسئلہ کی جانب دلائی جانا ضروری ہے وہ یہ کہ ذرائع مواصلات آنے کے بعد دیہی معیشت کو براہ راست فائدہ پہنچ رہا ہے اور اس کی ایک بڑی مثال موبائل فون اور انٹرنیٹ کی فراہمی ہے جس کی وجہ سے ایک کسان چند منٹوں میں منڈیوں سے فصل کی قیمت، موسم کا حال معلوم کر سکتا ہے اور اپنی فصل منڈی میں منتقل کر سکتا ہے اجناس کی زرعی منڈیاں کسان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہیں اور ان تک آسان رسائی کسانوں کا بنیادی حق ہے اسی طرح جنوبی پنجاب کا یہ خطہ جو کہ بورے والا، وہاڑی، خانیوال، میاں چنوں، چیچہ وطنی، چشتیاں، حاصل پور، بہاولنگر، ہارون آباد وغیرہ کے علاقوں پر مشتمل ہے زرعی اجناس کی پیدوار کے لحاظ سے پنجاب کے انتہائی زرخیزعلاقوں میں شمار ہوتا ہے اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے اگر ان شہروں کو بہترین ذرائع آمدورفت سے آپس میں ملا دیا جائے تو ان شہروں کی دیہی معیشت کے لئے صورتحال انتہائی بہترہو جائے گی۔ اگر جائزہ لیا جائے تو بورے والا سے چشتیاں کا فضائی فاصلہ 46 کلو میٹر ہے لیکن ان شہروں کے لوگوں کو چشتیاں،ہارون آباد، بہاول نگردیگر شہروں کو جانے کے لئے 100 کلو میٹر کی مسافت طے کرتے ہوئے دو شہروں وہاڑی اور حاصل پور سے گزر کربذریعہ ہیڈاسلام دریائے ستلج عبور کرنا پڑتا ہے جس سے نہ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ فیول کی مد میں بھی زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے اگر بورے والا اور چشتیاں کے درمیاں دریائے ستلج پر ساہوکا کے مقام پر پل اور سڑک بنا دی جائے تو عوام کی اکثریت کو اس کا فائدہ ہو گا۔ بورے والا ، چشتیاں، ہارون آباد، حاصل پور کی غلہ منڈیاں کاروبار میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں کیونکہ کاروباری لحاظ سے ان غلہ منڈیوں میں بیوپاری اپنا مال فروخت کرنا پسند کرتے ہیں جو بہرحال زرعی معیشت کی ترقی کے لئے نئی راہیں کھولے گا۔اس پل کی وجہ سے تعلیمی میدان میں بھی ترقی ہو گی ۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے بورے والا میں کیمپس کے قیام کے بعد تعلیمی میدان میں بھی فائدہ مند ہو گا زرعی یونیو رسٹی فیصل آباد کے بورے والا کیمپس سے ان علاقوں کے طالب علم براہ راست مستفید ہو سکیں گے چشتیاں بورے والا کے درمیان اس پل کی تعمیرکے بعد جی ٹی روڈ اور موٹر وے کے مجوزہ منصوبوں تک پہنچنے میں بھی آسانی ہو گی۔ بورے والا اور چشتیاں کے درمیان اس پل کی پیپلز پارٹی کے سابق دور حکومت میں قومی اقتصادی رابطہ کونسل نے PSDP پروگرام کے تحت تعمیر کی باقاعدہ منظوری اگست 2012ئ میں دے دی تھی اور اس کی تعمیر کے لئے 1644 کے فنڈز مختص کرکے 67 ملین روپے جاری کرنے کا حکم جاری کیا تھا اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے اس کا پی سی ون بھی تیار کر لیا تھا اور بورڈ میٹنگز میں اس کے پی سی ون کے مختلف پہلوﺅں پر بات چیت بھی ہوتی رہی ہے حالانکہ PSDP پروگرام میں ہر سال اس منصوبہ کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن اس کے لئے فنڈز مختص نہیں کیے جا رہے وزیر اعلی ٰ پنجاب نے گذشتہ دورہ بورے والا کے دوران پل کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا۔ اب وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اپنے 15 فروری 2018 کے مجوزہ دورہ کے دوران اگر اس عوامی مطالبہ کو پورا کر دیتے ہیں تو اس فیصلہ سے نہ صرف مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا بلکہ عوام کے ایک دیرینہ مطالبہ کی تکمیل بھی ہو گی جو زرعی معشیت کے لئے انتہائی فائدہ مند ہو گا۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔