مارچ نمو کا موسم ہے۔ مٹی اپنے من میں دبے ان ناتواں بیجوں سے بھی زندگی تخلیق کرتی ہے جو جاڑے اور ناموافق موسم میں نمو کی خواہش لے کر کہیں دبکے پڑے بہار کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور پھر وہ موسم آ جاتا ہے جو فطرت کے سنگھار کا موسم کہلاتا ہے۔ جس میں بیج کونپلوں کی صورت نمودار ہو کر اعلان کرتے ہیں کہ یہی زندگی ہے جو امکانات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ کئی سالوں سے بے حسی، بے رحمی اور بے یقینی کے سخت جاڑے تلے دبی ہوئی بے چارگی کی تصویر بنی پاکستانی قوم نے بھی بہار کے انتظار میں کسی بھی کٹھن گھڑی میں جینے کا خواب مرنے نہیں دیا بلکہ اسے ہر گھڑی نمو کی خواہش سے باندھے رکھا اور ہر حال میں زندگی سے جُڑت قائم رکھی۔ اگرچہ حالات سازگار نہیں تھے مگر ارادوں نے شکست تسلیم نہیں کی۔ ذرا مذاکرات کا سلسلہ ہموار ہوا، امن و امان کی فضا قدرے بہتر ہوئی تو انسان کی آرزوئیں بے یقینی کا حصار توڑ کر چہکنے لگیں۔ بہار کی پیامبر کونپلوں، پتوں، پھولوں اور کلیوں نے نمودار ہو کر روح سے مکالمہ کیا تو انسانی طبع پر سوار تھکن کی بھاری گٹھڑی کی جگہ سرشاری اور مسرت کی کیفیت نے لے لی۔ اسی پیغام نے دلوں کے دروازے پر بھی دستک دی اور انسان کو اپنے ہونے کا احساس دلانے پر اُکسایا۔ شگوفوں کی طرح انسان بھی تاریکی سے نمودار ہو کر فطرت سے ہم آہنگ کر کے اس کے نظاروں کے ساتھ مشغولِ رقص ہوا۔ یوں ظاہری خوبصورتی کی باطنی جمال سے آشنائی ہوئی تو جشنِ بہاراں کا آغاز ہو گیا اور مختلف ناموں سے اس کی رونمائی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسی سلسلے کا ایک پروگرام پنجاب کےزرخیز اور خوبصورت شہر وہاڑی میں وہاں کے فعال ڈپٹی کمشنر جواد اکرم نے منعقد کیا۔ کہنے کو تو یہ ایک کل پنجاب مشاعرہ تھا لیکن اسے گُل رنگ پاکستان کا نام دیا گیا کیوں کہ وسعت اور آفاقیت پنجابیوں کی فطرت میں ہے۔ برطانیہ سے منصور آفاق، آسٹریلیا سے نوشی گیلانی، امریکہ سے ناہید وِرک اور ناروے سے ادریس بابر کی شمولیت سے یہ عالمی مشاعرے کی شکل اختیار کر گیا۔ انور مسعود، امجد اسلام امجد، سید مبارک شاہ، قمر رضا شہزاد، تجمل کلیم، رحمن فارس اور کنور امتیاز احمد سمیت بہت سے خوبصورت اور دلفریب لہجے کے شاعروں نے اپنے شعروں سے اس بہاریہ مشاعرے کے رنگوں میں اضافہ کیا۔ گندم اور کپاس وہاڑی کی سرزمین کے خاص زیور ہیں۔ ان دو فصلوں کے حوالے سے زرعی معیشت میں اس ضلع کا خاص مقام ہے۔ یہاں بہترین نہری نظام ہے جو زمین کی توانائی میں نہ صرف اضافے کا باعث بنتا ہے بلکہ اسے عجیب طرح کی خوبصورتی بھی عطا کرتا ہے۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ریلوے لائن کے قیام کے بعد وہاڑی شہر آباد ہوا۔ اس خطے کی تاریخی حیثیت یوں مسلّم ہے کہ کبھی شیر شاہ سوری کی بنائی ہوئی سڑک یہاں سے گزر کر دِلّی تک جاتی تھی۔ شہر کی سڑکیں کشادہ اور عمارتیں خوبصورت ہیں اور یہی دلکشی اور کشادگی یہاں کے رہنے والوں کے مزاج اور خیال میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ نیلی بار کا وہ علاقہ ہے جہاں پنجابی زبان کے دو لہجے ایک دوسرے میں مدغم ہو کر زبان کو ایک نئی خوبصورتی عطا کرتے ہیں۔ یہاں پر بسنے والے مقامی لوگوں کے علاوہ اکثریت کا تعلق حافظ آباد سے لے کر راولپنڈی تک ہے۔ وہاڑی شعر و ادب کے حوالے سے شروع سے ہی زرخیز خطہ رہا ہے۔ غلام رسول انصاری کا شمار اساتذہ شعراء میں کیا جاتا ہے جنہوں نے یہاں باقاعدہ ایسی ادبی نشستوں کا آغاز کیا جن میں دور دراز سے نامور شعرائے کرام شرکت کیلئے آتے رہے۔ معروف شاعر مرتضیٰ برلاس کی بطور ڈپٹی کمشنر تعیناتی کے دوران یہ شہر ادبی محفلوں سے سجا رہا اور یہاں کئی عالمی سطح کی تقریبات منعقد ہوئیں۔ اب کچھ تعطل کے بعد جواد اکرم جو خود بھی اچھے شاعر ہیں کی ذاتی دلچسپی سے تخلیق کے رنگارنگ شگوفے پھر سے کھِل اُٹھے ہیں۔ وہاڑی کے تمام قد آور اور نمائندہ شاعروں کا تذکرہ اس کالم میں ممکن نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ یہاں کے نمائندہ شعراء تصوف کی طرف خاص میلان رکھتے ہیں۔ ندیم بھابھہ کئی برس پہلے ایک اچھے شاعر کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکا ہے۔ اب وہ ماننے اور منوانے کی منزل سے آگے کی طرف رواں دواں ہے۔ اس نے تمام صوفیوں کو محبت اور لگن سے یوں پڑھا ہے کہ ان کا پیغام اس کے خیالات میں رچ بس گیا ہے۔ اسی لئے اس کی موجودہ شاعری اسے ایک صوفی شاعر کے درجے کی طرف لے جا رہی ہے۔ مشاعرے سے قبل میلسی میں اس کے ڈیرے پر جانے کا اتفاق ہوا جہاں چاروں طرف فطرت کے نظارے کھلے عام دعوتِ حق دیتے نظر آتے تھے۔ وہاں اس کی ایک جدید جھونپڑی تھی جو ریاضت کے مرحلوں کیلئے بے حد موزوں تھی۔ آج یہ علاقہ اس کے بڑے بھائی محمد نعیم خان بھابھہ ایم پی اے کی سیاسی و سماجی کاوشوں کی وجہ سے معروف ہے لیکن ایک دن یہ ندیم بھابھہ کی انسان دوستی اور صوفیانہ شاعری کے باعث جانا جائے گا۔ وہاڑی کے نمائندہ شاعروں میں خاقان حیدر غازی ہے جس نے نہ صرف پنجابی زبان کی شاعری کو نئے آہنگ، منفرد لہجے سے روشناس کرا کے اس کا دامن مزید وسیع کیا ہے بلکہ منظوم ڈرامہ اور اس دھرتی کی لوک داستانوں کو یہاں کے مقامی لہجے میں پرو کر ایک قابلِ ستائش کام کیا ہے۔ ابھی تک اس کے سات شعری مجموعے منظر عام پر آ کر دادِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ اس کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے
ورھیوں پہلاں بھوگ لئے نیں، ورھیوں لمّے روگ
ہور صدی وچ آ گئے اسیں ہور صدی دے لوگ
میں نے جواد اکرم سے دریافت کیا کہ اپنی ملازمت کے علاوہ خیر کا کوئی خاص منصوبہ بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہے جس کا مقصد صرف خدمتِ خلق ہو تو جواد صاحب کا جواب اس حوالے سے عجیب اور تسلی بخش تھا کہ آٹھ ماہ کے دوران انہوں نے امن و امان کے حوالے سے اس شہر کو مثال بنائے رکھا ہے اور جرائم کی بیخ کنی میں اپنا ہر پل صرف کیا ہے لیکن انہوں نے اپنی شبانہ روز محنت کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کو دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو بس یہ ہدایت ہے کہ ہر کسی کے لئے دروازے کھلے رکھے جائیں، ان کی شکایات سنی جائیں اور ان کے مسائل حل کئے جائیں۔ ہم حکم پر عمل کرتے کرتے خیر کی طرف خود بخود نکل آئے ہیں اور ہماری ملازمت ازخود خدمتِ خلق میں ڈھلتی جا رہی ہے۔ لاہور سے وہاڑی تک کشادہ اور ہموار سڑک پر سفر کرنا بذاتِ خود ایک پکنک کے مترادف ہے کیوں کہ اِردگرد تاحد نظر میدانی علاقہ اور فصلوں سے سجے کھیت آنکھوں کو اتنے بھلے لگتے ہیں کہ دل سے بے اختیار یہ دعا نکلتی ہے کہ یہ گُل رنگ پاکستان اسی طرح آباد رہے۔ بشکریہ روزنامہ جنگ
0 تبصرے:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔