Pages - Menu

جمعرات، 1 جون، 2017

رمضان المبارک کے آغاز سے بورے والا شہر میں گرانفروشی عروج پر پہنچ گئی پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور سپیشل پرائس کنٹرول مجسٹریٹ اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر


بورے والا: رمضان المبارک کے آغاز سے ہی بورے والا شہر میں گرانفروشی عروج پر پہنچ گئی پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور سپیشل پرائس کنٹرول مجسٹریٹ اپنا کردار ادا کرنے سے قاصرعوام کو گرانفروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا تفصیلات کے مطابق مارکیٹ کمیٹی اور بلدیہ بورے والا کے اشتراک سے حکومت پنجاب کی ہدایت پر ایک خوبصورت رمضان بازار لگایا گیا ہے جہاں صفائی اور امن وامان کی صورتحال مثالی ہے تاہم اعلیٰ افسران کے جاتے ہی وہ درجہ اول فروٹ اور سبزیاں غائب کر دی جاتی ہیں اور یہ تمام کام مارکیٹ کمیٹی کے ارباب بست کشاد کی مبینہ ملی بھگت سے کیا جاتا ہے رمضان بازار میں حکومت کی سبسڈی کے تحت واحد دو اشیاءآٹا اور چینی بغیر جدوجہد کے با آسانی صارفین کو میسر ہے اس طرح کریانہ، گھی ،گوشت اور سبزیوں کے علاوہ مشروبات کی کوالٹی بہتر نظر نہیں آتی رمضان بازار کے علاوہ شہر میں عام تاجروں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے رمضان شریف سے پہلے فروخت ہونے والے فروٹ، کیلے، سیب، کھجور، آڑو، فالسہ، آلو بخارا، خوبانی، آم اور خربوزے کے ریٹ چار گنا تک بڑھائے جا چکے ہیں اسی طرح سبزیوں میں ٹماٹر، لیموں، ادرک، ٹینڈے، مٹر، آلو وغیرہ بھی محکمہ مارکیٹ کمیٹی کی طرف سے جاری لسٹوں کی پرواہ کئے بغیر دوکاندار بڑی ڈھٹائی سے منہ مانگی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں اگر کوئی گاہک مقررہ نرخوں پر تقاضا کرے تو اس کی بے عزتی کرنا معمول بن چکا ہے اور دلیل دی جاتی ہے کہ ہمیں یہ اجناس سبزی منڈی سے ہی مہنگے داموں ملتی ہے اور مارکیٹ کمیٹی والے صرف کاروائی ڈالنے کے لئے کم نرخوں پر ریٹ لسٹیں جاری کر کے انتطامیہ کو خوش کرتے ہیں جبکہ سرکاری محکموں کے افسران اور اہلکاروں کی نظر صرف رمضان بازار تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جہاں غیر معیاری اشیائے خوردنوش کو فروخت کر کے سستا رمضان بازار کی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے صارفین اور عوامی ،سماجی ،شہری حلقوں نے ڈپٹی کمشنر وہاڑی ،کمشنر ملتان اور وزیراعلیٰ پرائس کنٹرول سیل سے اصلاح احوال کی اپیل کی  ہے

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔