Pages - Menu

جمعہ، 8 اگست، 2014

پاکستان عوامی تحریک کے یوم شہداءاور انقلاب مارچ میں شرکت کے لیے جانے والے قافلے کو بورے والا پولیس نے گرفتار کرلیا، قافلے میں23 مرد اور 13خواتین شامل

بورے والا: یوم شہداءاور انقلاب مارچ میں شرکت کے لیے جانے والے قافلے کو بورے والا پولیس نے گرفتار کرلیا، قافلے میں23 مرد اور 13خواتین شامل،چھ گھنٹے سے پولیس کے ہاتھوں شٹل کاک بننے والی خواتین سخت گرمی میں بس کے اندر محبوس ہو کر رہ گئیں،مردوں کو لاہور کے کسی تھانہ میں بند کر دیا گیا،تفصیلات کے مطابق بورے والا کے نواحی گاﺅں309ای بی سے تعلق رکھنے والے پاکستان عوامی تحریک کے15مرد کارکنان اور13خواتین جو کہ پرائیویٹ بس نمبریQAC-2983 میں سوار ہو کر پاکستان عوامی تحریک کے انقلاب مارچ اور یوم شہداءمیں شرکت کے لیے لاہور جا رہے تھے بس کو ٹھوکر نیازبیگ چیک پوسٹ پر پولیس نے حراست میں لے کر تمام کارکنان کی تلاشی اور پوچھ گچھ کے بعد واپس اُسی بس میں خواتین اور دو بوڑھے کارکنان کو بورے والا روانہ کر دیا جبکہ دیگر کارکنان امتیاز احمد،محمد یٰسین،محمد رمضان،محمد سجاد،محمد نعیم،محمد مدثر،محمد مزمل،لیاقت علی،نذیر خاں،رحمت علی،محمد ارشد،محمد خالد اور محمد وسیم کو لاہور پولیس نے گرفتار کر کے کسی تھانے میں بند کر دیا بورے والاتھانہ گگومنڈی اڈا رسولپور چیک پوسٹ کے عملہ نے بس میں سوار تمام خواتین کارکنان انور بی بی،طیبہ بی بی،کبریٰ بی بی،مقدس بی بی،تمینہ بی بی،مقدس،فاطمہ اور دونوں بوڑھے کارکنان مدد علی اور نیامت علی کو بھی بس سمیت تھانہ صدر بورے والا بجھوا دیا گیا جہاں بس میں بند خواتین کارکنان کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس نے چیکنگ کے بہانے جگہ جگہ ذلیل و رسوا کیاہے ہم صبح سے بھوکھی اور پیاسی ہیں اور شدید حبس و گرمی میں بس کے اندر انہیں محبوس کیا گیا انہیں متعدد تھانوں کی پولیس نے بہت پریشان کیا ہے ہم پاکستان عوامی تحریک کی کارکنان ہیں اور پولیس نے جو سلوک ہمارے ساتھ کیاہے اُس سے ہمارے ارادے اور حوصلے پست نہیں ہونگے ہم کٹ یا مر تو سکتی ہیں لیکن ہم اپنے مشن کو پورا کریں گی دوسری جانب زیر حراست خواتین اور بس کی نگرانی پر مامور پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ انہیں اوپر سے جو آرڈر ملے گا اُسکے مطابق عمل کریں گے۔

0 تبصرے:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔